شجر الدر نے ایک صلیبی فوج کو مشکل میں ڈال دیا: ایک کنیز کی تخت نشینی اور قتل کی کہانی
سنہ 1249 اور نومبر کا مہینہ۔ دریائے نیل کے کنارے مصر کے شہر منصورہ کے میدان میں دو بڑی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔
ایک طرف یورپ سے فرانس کے طاقتور بادشاہ لوئی نہم کی قیادت میں آنے والی ساتویں صلیبی فوج ہے اور دوسری طرف مصر کے سلطان اور ایوبی خاندان کے آخری فرمانروا سلطان الصالح کے سپاہی۔
فرانس کے بادشاہ لوئی نہم، جنھیں اپنے مذہبی طرز عمل کی وجہ سے تاریخ میں سینٹ لوئی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے امرا اور مشیروں کے ساتھ جنگ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس مصر کے سلطان کے خیمے میں خاموشی چھائی ہے۔ کئی مؤرخ لکھتے ہیں کہ طاقتور ایوبی خاندان کے ساتھ یہ جنگ مصر اور یروشلم کے مستقبل کے لیے فیصلہ کُن تھی۔ اس سب کی ذمہ داری بہت حد تک ایک سابقہ لونڈی اور اب سلطان کی بیوی شجرالدر کے ہاتھ میں تھی۔ شجرالدر کے معنی ’موتیوں کا درخت‘ ہیں۔جیت کی صورت میں فرانس کے بادشاہ نہم کے لیے قاہرہ فتح کرنا بھی مشکل نہ ہوتا اور اس کے بعد صلیبی فوج کے لیے یروشلم کی منزل آسان ہو جاتی۔
بادشاہ لوئی نہم مصر فتح کر کے یروشلم واپس حاصل کرنے کی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے دسمبر 1244 میں شدید بیماری کی حالت میں صلیب پر یروشلم حاصل کرنے کا عہد کیا تھا۔فرانس کے بادشاہ لوئی جنگجو، وسائل اور جنگی ساز و سامان حاصل کرنے کی ایک بھرپور مہم کے بعد تقریباً 200 بحری جہازوں پر مذہبی جذبے سے سرشار ہزاروں سپاہیوں کے ساتھ مصر پر حملے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ انھیں معلوم تھا کہ یروشلم پر حملے کے لیے مصر پر کنٹرول بہت ضروری ہے اور جس وقت وہ روانہ ہوئے، مصر کے سلطان کسی مہم پر تھے اور حملے کی اطلاع ملنے پر انھیں تیزی سے واپس لوٹنا پڑا۔
4 جون سنہ 1249 کو جب صلیبی فوج بحیرہ روم کے ساحلی شہر دمیاط پر اتری تو تمام حالات سازگار لگ رہے تھے اور دمیاط میں ابتدائی کامیابی نے ان کے حوصلے اور بھی بلند کر دیے۔ صلیبی فوج کامیابی کے ساتھ دریائے نیل کے ساتھ ساتھ پیشرفت کرتی منصورہ تک پہنچ گئی۔
صلیبیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ مصر کے سلطان الصالح شدید بیمار ہیں اور ان کے واحد بیٹے اور وارث طران شاہ کی ایک تو شہرت اچھی نہیں دوسرا وہ مصر سے بہت دور تھے جبکہ سلطان کی موت کی صورت میں مملوکوں (غلاموں) پر مشتمل فوج کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور مصر میں طاقت کے مختلف مراکز میں سیاسی کشمکش بھی شروع ہو سکتی ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔انھیں نہیں معلوم تھا کہ منصورہ کے میدان جنگ میں 22 نومبر 1249 کو سلطان الصالح کا 44 سال کی عمر میں اپنے خیمے میں انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی وفات کی خبر خود مسلمان فوج کے علم میں بھی نہیں تھی۔ ان کے خیمے میں چھائی خاموشی نے بھی کسی کی توجہ حاصل نہیں کی کیونکہ بیماری کے دوران وہ ویسے ہی کسی کے سامنے نہیں آ رہے تھے اور ان کی فوج نے ان کو کافی دنوں سے نہیں دیکھا تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی مشکل وقت میں ان کی اہلیہ اور سابقہ لونڈی شجرالدر، جو انھیں برسوں پہلے بغداد سے عباسی خلیفہ سے تحفے میں ملی تھیں، اُن کے ساتھ تھیں۔
شجرالدر نے فوج کے کمانڈر فخرالدین اور کیولری کمانڈر کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ جب تک ولی عہد طران شاہ مشرقی اناطولیہ سے واپس پہنچ کر تخت نہیں سنبھال لیتے سلطان کی موت کو تین مہینے تک خفیہ رکھا جائے گا۔
مؤرخ مارگیٹ ویڈ لابارج اپنی کتاب ’لوئی نہم: موسٹ کرسچن کِنگ آف فرانس‘ میں لکھتی ہیں کہ ایوبی سلطنت کے تخت کا وارث اور سلطان کا بیٹا بہت دور تھا اور مسلمان کیمپ میں کنفیوژن سے مسیحیوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی مل سکتی تھی۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’سلطان کی اہلیہ جو ثابت قدم اور دور اندیش تھیں انھوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے چند اہم امرا کی مدد سے یہ خبر مسلمان فوجیوں سے چھپائی رکھی اور سپہ سالار فخر الدین کے ہاتھ مضبوط کر کے انھیں اضافی ذمہ داریاں سونپ دیں۔‘
فرانس کے بادشاہ اور مصر کے سلطان کا ایک دوسرے کو چیلنج
مؤرخ فیئر چائلڈ رگلز شجر الدر کی زندگی پر لکھی اپنی کتاب ’ٹری آف پرلز (موتیوں کا درخت: 13ویں صدی میں مصر کی غلام ملکہ شجر الدر کی غیرمعمولی تعمیرات)‘ میں بتاتی ہیں کہ مصر کے ساحل پر اُتر کر بادشاہ لوئی نے سلطان الصالح کو خط لکھا کہ ’میرے سپاہیوں سے پہاڑ اور میدان بھر گئے ہیں، ان کی تعداد اتنی ہے جیسے ساحل پر بکھرے کنکر اور وہ تم پر تلوار بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔‘
سلطان نے جواب میں لکھا کہ ’آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ہماری فوج کا کوئی حصہ تباہ ہوا ہو اور ہم نے اسے بحال نہ کیا ہو اور آج تک کوئی ظالم ایسا نہیں آیا جس نے سر اٹھایا ہو اور ہم نے اسے کچلا نہ ہو۔۔۔‘
یہ جواب اپنی جگہ لیکن مؤرخ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک السر کی وجہ سلطان الصالح اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ انھیں پالکی میں سوار کروا کر میدان جنگ تک لایا گیا۔تاہم سلطان الصالح کی موت اور ولی عہد طران شاہ کی آمد کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ صلیبی فوج کو نہ صرف بھاری جانی نقصان کے ساتھ پسپائی اختیار کرنا پڑی بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ پانچ اپریل کو بادشاہ لوئی اپنے بھائی اور بہت بڑی تعداد میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ مسلمان فوج کے قیدی بن گئے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ فرانس کے بادشاہ کے قیدی بننے میں ان کی اپنی بہادری کا بہت بڑا ہاتھ تھا کیونکہ انھوں نے اپنی پسپا ہوتی فوج میں سب سے آخری اور پیدل سپاہیوں کے ساتھ چلنا پسند کیا، نہ کہ گھوڑے پر سب سے آگے جیسا کہ ان کے امرا نے ان سے التجا کی تھی۔
فرانس کے بادشاہ کی رہائی بھاری تاوان کے بعد ممکن ہوئی۔ یہ 13ویں صدی تھی جب ہر چیز کی رفتار آج کے مقابلے میں بہت سست تھی۔ تاوان کی ادائیگی اور ان کی واپسی کا مرحلہ ابھی طے نہیں پایا تھا کہ طران شاہ مملوکوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور صلیبیوں کے ساتھ فرانس کے بادشاہ کی آزادی اور تاوان کی ادائیگی یہ مرحلہ بھی شجرالدر کی نگرانی میں انجام کو پہنچا۔ مؤرخ اس چیز کو ان کی مختصر زندگی کی بڑی کامیابیوں میں گنتے ہیں۔
شجرالدر کا سلطان کی موت کو خفیہ رکھنے کا منصوبہ
فیئر چائلڈ نے اس زمانے کے مؤرخین سبط ابن الجوزی اور ابن واصل (جو اس وقت حیات تھے) کے حوالے سے سلطان کی موت کے بعد کے واقعات کی تفصیل بیان کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ وہ جنگ کے دوران اور سلطان کی موت کے وقت منصورہ میں ان کے ساتھ تھے۔
مؤرخ ابن واصل نے اس تمام صورتحال کو یوں بیان کیا ’اتنے اہم موقع پر سلطان کی موت کے بعد ان کی بیوی شجر الدر نے فیصلہ کیا کہ حالات کو قابو میں رکھنے اور فوج کو متحد رکھنے کے لیے امیر فخرالدین سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ انھوں نے کیولری کمانڈر جمال الدین محسن کو اعتماد میں لے کر امیر فخرالدین کو طلب کیا۔ ان تینوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ یہ خبر سب سے خفیہ رکھی جائے گی۔۔۔‘
صورتحال اس لیے بھی پیچیدہ تھی کہ سلطان کے دو بیٹوں کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کا تیسرا بیٹا اور واحد وارث طران شاہ اس وقت دو ہزار کلومیٹر دور مشرقی اناطولیہ میں تھا۔
ابن واصل کے مطابق شجر الدر، فخرالدین اور جمال الدین محسن نے طے کیا کہ شہزادے طران شاہ کی واپسی سے پہلے پوری فوج اور تمام امرا سے فخرالدین سمیت سلطان الصالح اور طران شاہ کی وفاداری کا حلف لیا جائے گا۔سبط ابن الجوزی بتاتے ہیں کہ ’ام خلیل (شجر الدر) کے ہاتھ میں تمام معاملات تھے، انھوں نے خیمے میں کچھ تبدیلی نہیں ہونے دی۔ روز کی طرح کھانا وہاں لایا جاتا تھا، امرا حاضری کے لیے آتے رہے بس فرق یہ تھا کہ شجر الدر ان سے کہہ دیتیں کہ سلطان بیمار ہیں اور کوئی انھیں نہیں دیکھ سکتا۔
’سلطان کے زندہ ہونے کا تاثر قائم رکھنے کے لیے ڈاکٹر بھی صبح شام خیمے کا چکر لگاتے رہے۔ سلطان کے ذاتی معالج سے رات کے وقت ان کی میت کو نہلانے اور دعا کرنے کے لیے کہا گیا۔۔۔‘ کچھ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ سلطان کی لاش کو خیمے سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
’شجر الدر کی طرف سے سلطان کے جعلی دستخطوں کے ساتھ خیمے سے احکامات بھی جاری ہوتے رہے۔‘
جوزی لکھتے ہیں سلطان الصالح کئی بار لمبے عرصے کے لیے جنگوں پر جاتے ہوئے معاملات شجرالدر کو سونپ کر جاتے تھے اور اسی دوران انھوں نے سلطان کے دستخط نقل کرنے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ وارث کی تخت نشینی تک کسی حکمران کی موت کو خفیہ رکھنا اس زمانے میں غیر معمولی بات نہیں تھی جب خبر ایک سے دوسری جگہ پہنچنے میں بہت وقت لگتا تھا۔
’مصر کے پاس سلطان تھا نہ سپہ سالار‘
مصر میں جلد ہی صورتحال کے بارے میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ مؤرخ ابن واصل لکھتے ہیں کہ انھیں سلطان کی موت کے تیسرے روز حقیقت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ لیکن ایوبی دربار میں کام معمول کے مطابق چلتا رہا تاکہ صلیبیوں کو مصر کی کمزوری کا پتا نہ چلے اور جمعے کے خطبے میں بھی سلطان الصالح کا نام لیا جاتا رہا۔لیکن افواہیں پھیلنا شروع ہو چکی تھیں اور اس کے ساتھ محلاتی سازشیں بھی۔ قاہرہ کے گورنر نے شہزادے طران شاہ کو جلد واپس آنے کا پیغام پہنچایا کہ ’آپ نے دیر کی تو کھیل ختم ہو جائے گا۔‘
دریں اثنا صلیبی فوج مزید 20 کلومیٹر پیش قدمی کرتے ہوئے قاہرہ کے قریب آ چکی تھی۔ سلطان الصالح کے جعلی دستختوں کےساتھ منبر سے لوگوں سے جہاد کی اپیل کی گئی لیکن افراتفری پھیل چکی تھی۔
اسی دوران مسیحی فوج نے حملہ کر دیا۔ جنگ کے دوران نو فروری 1250 کو امیر فخرالدین کا انتقال ہو گیا اور حالانکہ صلیبی ناکام رہے اور مصر جنگ جیت گیا لیکن اب ’مصر کے پاس سلطان تھا اور نہ سپہ سالار۔‘
طران شاہ کی آمد اور قتل
24 فروری کو طران شاہ منصورہ پہنچے اور فوج کی کمان سنبھالی۔ اس وقت ان کے والد کے انتقال کو تین ماہ ہو چکے تھے۔
فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ طران شاہ کا رویہ اپنے والد کے رفقا سے اچھا نہیں تھا اور بہت جلد ان کو ہٹانے کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ مصر سے غیر ملکی فوج کا خطرہ تو ٹل چکا تھا لیکن اندرونی طور پر سلطنت خلفشار کا شکار تھی۔ سابق سلطان کے رفقا، اہم امرا اور مملوک کمانڈر جان کا خطرہ محسوس کرنے لگے تھے۔
شجر الدر کا مستقبل بھی غیر واضح تھا۔ لیکن انتہا اس وقت ہو گئی جب طران شاہ نے انتہائی ’توہین آمیز پیغام‘ بھیجتے ہوئے ان سے سرکاری خزانہ اور اپنے زیورات ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
حالات تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ شجرالدر نے سلطان الصالح کے وفادار مملوکوں سے مدد طلب کر لی۔ فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ ان مملوک قائدین نے طران شاہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ سلطان الصالح کے مملوک شجرالدر کا شاید اس لیے بھی ساتھ دے رہے تھے کہ وہ بھی ان کی طرح ترک نسل سے تھیں اور ماضی میں غلام رہ چکی تھیں۔
فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ اس دور کے مؤرخین طران شاہ کے قتل کی تاریخ پر متفق نہیں لیکن یہ واقعہ سنہ 1250 میں اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں پیش آیا تھا۔ شجر الدر اس قتل کی سازش میں شامل تھیں یا نہیں؟ اس بارے میں اس زمانے کے مبصرین خاموش ہیں لیکن ایک نامعلوم مصنف کی کچھ عرصے بعد لکھی گئی کتاب ’حوادث‘ کے مطابق اس سازش میں ان کی رضامندی ضرور تھی۔
اب سوال یہ تھا کہ مصر کا نیا سلطان کون ہو گا جو سلطنت کو استحکام بخش سکتا ہے؟
سلطان شجر الدر: ’وہ لمحہ جس کا قرون وسطیٰ میں تصور نہیں کیا جا سکتا تھا‘
فیئرچائلڈ لکھتی ہیں یہ ’ایک غیر معمولی لمحہ تھا جب تخت پر کوئی ایوبی امیدوار نہیں تھا، سلطنت کا کنٹرول مملوکوں کے پاس تھا، بغداد کے خلیفہ غیر موثر تھے اور کوئی ایسا انسان جس کا سلطان الصالح کے ساتھ براہ راست تعلق تھا، وہ صرف ان کے مرحوم بیٹے خلیل کی ماں ہونے کے ناطے ان کی سابقہ لونڈی اور بیوہ شجر الدر تھیں۔‘
’اور اس طرح وہ ہو گیا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
ابن واصل لکھتے ہیں کہ مصر کے امیر اور الصالح کے مملوک، سلطان کے خیمے میں اکٹھے ہوئے اور ’مل کر فیصلہ کیا کہ شجر الدر کو سلطان کا عہدہ سنبھال کر حکومت کرنی چاہیے اور سلطانی حکم اب ان کے نام اور دستخط سے جاری ہوں گے۔‘
شجر الدر طران شاہ کی موت کے دو دن بعد چار مئی کو ایوبی سلطنت کی سلطان نامزد ہوئی تھیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور حل طلب مسئلہ فوج کے نئے سپہ سالار کی نامزدگی کا تھا۔ اعلیٰ عہدیداران کی طرف سے اس غیر یقینی ماحول میں اس ذمہ داری لینے سے انکار کے بعد ایک درمیانے درجے کے مملوک عہدیدار عزالدین ایبک کو یہ عہدہ دے دیا گیا۔ ’اس کے بعد ریاست کے تمام معاملات ان کے نام سے چلنے لگے اور دستاویزات پر اُم خلیل کے نام کے دستخط ہوتے تھے۔‘
ابن واصل بتاتے ہیں کہ ’ایک بار پھر مصر کے امرا اور سلطان الصالح کے مملوک شاہی خیمے میں اکٹھے ہوئے اور شجرالدر سے بحیثیت سلطان اور ایبک سے بحیثیت فوج کے کمانڈر وفاداری کا حلف لیا۔‘قاہرہ اور تمام مصر میں جمعے کے خطبے میں بھی ان کا نام پڑھا جانے لگا۔ 14ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں لکھی گئی دستاویز ’حوادث‘ کے مطابق شجر الدر کے سلطان بننے کے بعد جمعہ کو دعا پڑھی گئی کہ ’اے خدا! سلطان، الملک الصالح کی (سابق) غلام، ملکہ المسلمین، عصمت الدنیا والدین (شجر الدر کا اسلامی نام)، اُم خلیل، المستعصم کی غلام، الملک الصالح کی بیوی، مومنین کے سپہ سالار کی حلیف کی حفاظت کرنا۔‘
شجرالدر: تحفے میں دیے جانے والے مال سے حکمرانی تک
مؤرخ فیئر چائلڈ شجر الدر کی زندگی پر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ان کی نظر میں اہم سوال یہ ہے کہ انھوں نے سلطان کی محبت اور اعتماد کیسے حاصل کیا کیونکہ سلطان کی شجر الدر کے لیے بے پناہ محبت کے بہت سے شواہد ملتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ سلطان الصالح کی موت کے بعد ان کے اہم مشیر ملکہ کا ساتھ دینے پر کیوں مجبور ہوئے اور انھوں نے کس بنیاد پر ایک ایسی عورت کو حکمرانی کے قابل سمجھا جس کا پس منظر انتہائی غیر معمولی تھا۔
’انھوں (شجر الدر) نے اپنے آپ کو سلطان کا عہدہ اور فرائض سنبھالنے کے اہل سمجھنے کی جرات بھی کیسے کی جبکہ مصر اور شام میں ماضی میں کسی عورت نے ایسا نہیں کیا تھا۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ شجر ابتدائی طور پر ایک پُرعزم، خوبصورت، نوجوان خاتون کے روپ میں تاریخ کے پردے پر نمودار ہوتی ہیں جن کی تمام تر وفاداری اپنے مالک اور خاوند کے ساتھ ہوتی ہے، پھر جب وہ یورپ سے فرانس کے بادشاہ کی قیادت میں یروشلم پر قبضے کے لیے آنے والی ایک طاقتور صلیبی فوج کو ناکام واپس لوٹنے اور ایوبی خاندان کی حکمرانی قائم رکھنے میں کردار ادا کرتی ہیں تو ایک انتہائی ذہین سیاستدان کی شکل میں نظر آتی ہیں اور پھر آخر میں جب وہ اپنے دوسرے شوہر پر شک کرتے ہوئے ان کے قتل کا سوچتی ہیں تو ایک سکیمر کا روپ سامنے آتا ہے۔
فئیرچائلڈ لکھتی ہیں کہ شجر الدر صرف ایک غیر معمولی عورت نہیں تھیں بلکہ وہ ایک ہنگامہ خیز اور غیر متوقع تاریخی لمحے کی پیداوار تھیں۔
فیئرچائلڈ بتاتی ہیں شجر الدر سنہ 1236-38 میں شہزادہ الصالح کی زندگی میں آئیں۔ وہ غالباً بغداد کے مستقبل کے عباسی خلیفہ المستعصم کی طرف سے شہزادے الصالح کے لیے تحفے کے طور پر بھیجی گئی تھیں۔ تاہم 13 اور 14 ویں صدی کی تحریروں میں اس کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ اس وقت تک ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
وہ لکھتی ہیں کہ شجرالدر کا پہلی بار ذکر جون سنہ 1240 میں ملتا ہے جب انھوں نے شہزادہ الصالح کے بیٹے خلیل کو جنم دیا۔ فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ریکارڈ کا حصہ اسی صورت میں بنتا تھا جب وہ اقتدار کی دوڑ میں اہمیت اختیار کرتا۔
شجر الدر کے تو خاندان کے بارے میں بھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا، اس لیے فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ ان کی زندگی کی کہانی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ’وہ تاریخ میں پہلی بار ایوبی سلطنت کی سربراہی کی امیدوار کے طور پر نہیں بلکہ مردوں کے درمیان تبادلے کے ایک مال کے طور پر نظر آتی ہیں۔‘
مصر میں مملوکوں کا بڑھتا اثر و رسوخ
جس وقت شجر الدر منظر عام پر آئیں ایوبی خاندان میں اقتدار کے جھگڑوں کو شروع ہوئے نصف صدی بیت چکی تھی، مصر اور شام میں صلیبی کارروائیاں بڑھ رہی تھیں اور مصر میں اور خاص طور ہر اس کی فوج میں ترک غلاموں یا مملوکوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔
اس دور کے مؤرخین کہتے ہیں کہ مصر میں عسکری ضروریات کے لیے غلام بنا کر لائے جانے والے لڑکوں کی بہت مانگ تھی لیکن لونڈیوں کی مانگ غلام لڑکوں سے بھی زیادہ تھی کیونکہ آزادی حاصل کرنے والے مرد غلام یا مملوک اپنے لیے اپنی ہی ہم نسل کی ترک بیویوں یا لونڈیوں کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں آزاد عورتوں کی خدمت کے لیے صرف خواجہ سرا یا خادمائیں ہی ہو سکتی تھیں۔
فیئر چائلڈ لکھتی ہیں کہ غلامی کا نظام دنیا میں کہیں بھی کبھی بھی منصفانہ نہیں تھا لیکن مغرب میں غلامی کے نظام کے برعکس جہاں یہ زرعی مزدوری، کیپٹلزم اور نسلی بالا دستی کے تصورات سے جڑا تھا، اسلام میں معاشرہ نسلی یا لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں تھا بلکہ غلاموں کو ترقی کرنے اور سماج کا حصہ بننے کے بہت سے مواقع ملتے تھے۔مؤرخ نذر السید نے اپنی کتاب "قاہرہ: ایک شہر کی تواریخ‘ میں لکھا ہے کہ مملوک کا مطلب تھا وہ جو کسی کی ملکیت ہو۔ یہ لوگ گھڑسواری اور جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ مملوک مصر کے ایوبی حکمرانوں کے محافظ کے طور پر تعینات ہوتے تھے۔
’ان کے عسکری کردار کی وجہ سے انھیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اتنے طاقتور ہو گئے کہ ان کی حمایت کے بغیر کوئی تخت پر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔‘
No comments:
Post a Comment